ازل کے نور کو جب اس میں آشکار کیا
خود اپنی ذات پہ خالق نے افتخار کیا
جبین ذرہ میں سورج سجا دئیے تو نے
شب سیہ کو تجلی سے ہمکنا ر کیا
ترے جمال نے بخشا تصورات کو نور
ترے خیال نے ذہنوں کو استوار کیا
تری شبیہ کی تکمیل پر مصور نے
خود اپنے فن کو تری ذات پہ نثار کیا
علی کو فرش رسالت دیا شب ہجرت
رفیق تھے جو ابو بکر یار غار کیا
اسی سے لیتے ہیں اہل جہاں قرار کی بھیک
تمہاری یاد نے جس دل کو بے قرار کیا
جو پست تھے وہ بلندی سے ہمکنار ہوئے
غبار راہ کو تو نے فلک وقار کیا
ہے علم خیر کثیر اور زر متاع قلیل
یہ راز تو نے زمانے پہ آشکار کیا
عطا کیا ترے دیدار نے ثبات قدم
سہارا پایا تو پھر پل صراط پار کیا
جنون عشق نبی کی سند ملی ہم کو
نصیر ہم نے گریباں جو تار تار کیا
0 Comments